تم طویل عرصہ سے قید میں ہو۔۔
تمہیں اتنی زیادہ غلط باتیں بتائی اور سکھائی گئی ہیں کہ جینا سزا بن چکا ہے۔ قبر تک سسسک سسک کر رینگنے کا عمل بنا دیا ہے زندگی کو۔۔لوگ پھر بھی جیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اور کیا کریں؟ دھرموں اور پنڈتوں نے صدیوں کی محنت سے انسانی لاشعور میں اس بات کو پختہ کر دیا ہے کہ انسان پیدا ہی گناہ گار ہوا ہے۔ سب ہی بتاتے چلے آئے ہیں کہ تم عذاب میں ہو، مصیبت زدہ ہو۔ آدم اور حوا کے حوالے سے ایک ایسی نافرمانی ہوئی ہے جس کا خمیازہ اب اولاد آدم کو بھگتنا ہے۔ لہذا اب تمہیں ہر صورت یہ عذاب سہنا ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ اپنی توجہ وہاں مرکوز کرو جہاں سے تمہاری زندگی اُبھرتی ہے۔ اُس ہستی کو اپنے اندر محسوس کرو جو قائم ہے۔
صوفیوں اور درویشوں کی تمام زندگی “ یا حی یا قیوم “ کا زکر کرتے گزر جاتی ہے۔
جس سے تمام حیات ہے، اُس حی سے جو تمام حیات کا منبہ ہے ربط میں سستی اور کاہلی سے آپ کے اندر حیات کا مادہ ماند پڑنے لگتا ہے۔۔
اپنی روشنی کے مطابق جیو۔اپنے اندر اپنی روشنی پاؤ اور کسی خوف کے بغیر اس کے مطابق جیو۔ یہ ہماری ہستی ہے، ہم اس کا حصہ ہیں۔ ہستی ہم سے جو کچھ ہونے کی خواہاں ہے، وہ ہم میں موجود ہے۔ اسے استعمال کرو! اسے حقیقت بناؤ! کسی چیز سے مت چمٹو اور مصائب بھری زندگی مت گزارو۔
فطرت خدا کے گھر کا دروازہ ہے۔ جو لوگ فطرت سے قریب نہیں ہوتے وہ خدا کی قُربت کے حصول میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں۔
دُعا گُو و دُعا جُو
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں