اہم خبریں

آہ ۔۔ انقلاب کے دروازے پر الفاظ کی دستک دینے والا درویش چلا گیا ۔۔ لرزتے قلم کے آنسو :محمد نواز کھرل ۔

 


آہ ۔۔ انقلاب کے دروازے پر الفاظ کی دستک دینے والا درویش چلا گیا ۔۔
استاد گرامی پروفیسر طفیل سالک کی اس کھوکھلی دنیا سے رخصتی ۔۔۔ لرزتے قلم کے آنسو  ۔۔۔ تڑپتے دل کا سلگتا نوحہ

لاہور ، کراچی ، راولپنڈی ،  امریکہ اور برطانیہ میں موجود سابقین انجمن کے پیارے لیڈروں سے دردمندانہ اپیل  ۔۔۔

محمد نواز کھرل ۔۔۔۔۔

فلسفہ کے نامور استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل سالک شاہراہ حیات پر چلتے چلتے موت کی وادی میں اتر گئے ۔۔۔ میری مادر علمی گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فلسفہ کے سابق سربراہ پروفیسر طفیل سالک ہم سے جدا ہو کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ۔۔۔ میری مادر فکری " انجمن طلباء اسلام " کا فکری راہنما ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا ۔۔۔ پردیس میں رہتے ہوئے اس روح فرسا خبر نے دل کو بوجھل بنا رکھا ہے  ۔۔  
دانش مشرق سے مالامال پروفیسر طفیل سالک کی کہانی ، اسلامی و روحانی انقلاب کے خواب دیکھنے اور دکھانے والے ایک سچے اور پکے نظریاتی اور انقلابی  انسان کی حیرت انگیز کہانی ہے  ۔۔۔ ایک طویل فکری جدوجہد کی تابناک کہانی ۔۔۔ اجلے خوابوں کے ایک مخلص صورت گر کی شاندار کہانی ۔۔۔ سادگی ، درویشی اور فقر غیور کی جگمگاتی کہانی ۔۔۔ پاکستان کے سب سے اہم تعلیمی ادارے کے سب سے اہم شعبے کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی لاہور شہر کے گلی کوچوں میں پیدل چلنے والے ایک صوفی کی کہانی ۔۔۔ بونوں کی بستی کے ایک بلند قامت ، بلند کردار انسان کی کہانی ۔۔۔ کتاب دوستی اور علم دوستی کی ایک بے مثال کہانی ۔۔۔ میرے استاد محترم پروفیسر طفیل سالک بلاشبہ ایک عبقری شخصیت تھے ۔۔ وہ فکری سربلندی کا ایک لہکتا ، مہکتا اور چمکتا ہوا استعارہ تھے ۔۔ پروفیسر طفیل سالک کی ذہانت و فطانت اور قابلیت و صلاحیت کا عالم یہ تھا کہ وہ جب میٹرک کے سٹوڈنٹ تھے تو ان کے مضامین اس وقت کے سب سے اہم انگلش اخبار " پاکستان ٹائمز " میں شائع ہوا کرتے تھے ۔۔۔ سالک صاحب باقاعدہ میرے استاد تو نہیں تھے مگر 85 سے 91 تک گورنمنٹ کالج لاہور میں گزرے زمانہ طالب علمی کے دوران ہر دن کا کچھ حصہ ان کی صحبت میں بسر ہوا ۔ جی سی کے  بخاری آڈیٹوریم سے متصل ان کے دفتر میں باادب حاضریوں نے ہمیں بھی ان کے شاگردوں کی محفل میں شامل کر رکھا تھا ۔۔۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کی فیض بخش صحبت میں ہر روز کچھ وقت گزارنا قلب و نظر کو پھر سے روشن کرنے کے مترادف ہوتا تھا ۔ ان مجالس میں سالک صاحب سے انقلاب کا پڑھا ہوا سبق اور اس سبق سے جڑا خواب آج بھی ذہن کی مومی تختی پر نقش ہے ۔۔ وہ خواب ، جس کی دھن پر ہم جیسوں کی زندگیاں بسر ہوئیں ۔۔ مگر وہ خواب ابھی تک دور کا خواب ہے یا دیوانے کا خواب ۔۔۔
دوستو ! ایک سچے انقلابی و نظریاتی انسان کے لئے وہ لمحہ انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے ، جب وہ بےبسی سے ، جاگتی آنکھوں کے ساتھ اپنے خوابوں کو ٹوٹتا اور بکھرتا ہوا دیکھتا ہے اور خود کو ان خوابوں سے دستبردار ہونے پر مجبور پاتا ہے  ، وہ خواب جن کے لئے اس نے سب کچھ داو پر لگا کر زندگی بھر جدوجہد کی ہوتی ہے  ۔۔ ہائے ، ہم اور ہمارے خواب ۔۔ اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کی آوازوں سے ڈرے ہوئے ہم ایسوں کے یہ دکھ صرف پروفیسر طفیل سالک سمجھ سکتے تھے ، جو وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا ۔ اس دکھ کی تصویر کیسے بناوں ، اس محرومی کو کیسے بیان کروں ، انقلاب نظام مصطفے کی تعبیر کے لئے نکلے ہوئے کارکنان کو اب کون راستہ دکھائے گا ۔ لیکن میرا یقین ہے کہ سیدی مرشدی یانبی یا نبی ۔۔۔ غلام ہیں غلام ہیں ، رسول کے غلام ہیں ۔۔۔ ہم عظمت رسول کے پاسباں ہیں پاسباں ، جیسے نعرے تخلیق کرنے والے پروفیسر طفیل سالک اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک یہ نعرے گونجتے رہیں گے ، نہ کبھی ان نعروں کی گونج مدھم پڑے گی اور نہ پروفیسر طفیل سالک کی یادوں کے چراغوں کی لو مدھم پڑے گی ۔۔۔ پروفیسر طفیل سالک کے لکھے ہوئے نظریاتی لٹریچر اور تنظیمی کتابچوں کے حرفوں میں پوشیدہ پیغام نسل نو کے لہو کو گرماتا اور جذبوں کو جگاتا رہے گا ، ہم جیسے نکمے تو انقلاب کے خواب سے دستبردار ہو گئے لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں سالک صاحب کی تحریریں پڑھ کر انقلاب کے راستوں پر چلنے والے نوجوان انقلاب کا خواب ضرور پورا کریں گے ۔۔۔
دوستو ! کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہماری تنظیمات بوذری مزاج رکھنے والے پروفیسر طفیل سالک جیسے عالمی سطح کے مفکر سے کام نہ لے سکیں ، ان کی قدر نہ کر سکیں ، کتنے شرم اور دکھ کی بات ہے کہ پروفیسر طفیل سالک نے ساری زندگی کرائے کے مکانوں میں گزار دی ۔۔ سالک صاحب اکثر المصطفے آئی ہسپتال تشریف لاتے تھے اور ہمیں ان کی صحبت میں کچھ لمحات گزارنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی،  ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کا احوال جلد تفصیل سے لکھوں گا ۔ دو سال قبل نظام مصطفے پارٹی کے احیا کے لئے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ہونے والے ملک گیر کنونشن میں  سالک صاحب کا یادگار خطاب مستقبل کے لائحہ عمل اور فکری مغالطے دور کرنے کے حوالے سے ایک اہم خطاب تھا ۔۔۔ منحنی جسم اور توانا فکر کے حامل سالک صاحب زندگی بھر اے ٹی آئی کے سابقین کو متحد کرنے کی کوششیں کرتے رہے لیکن ان کا یہ خواب خواب ہی رہا ۔۔۔ آج سالک صاحب کے سانحہ ارتحال کے دکھ بھرے سوگوار  لمحات کے دل میں بیٹھ کر یہ سطور قلمبند کرتے ہوئے ، اپنی جوانیاں ایک نظریہ کے لئے کھپانے والے تحریکی و تنظیمی دوستوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے کتنے ساتھی ، جو ہمارے ساتھ شریک جدوجہد تھے،  ہم سے بچھڑ گئے ، ہم سب نے بھی چلے جانا ہے ۔۔ یاد کیجئے ، ڈاکٹر محمد شریف سیالوی ، محمد اقبال اظہری ، احمد عبد الشکور ، عطاء المصطفے نوری ، صفدر مسعود گورائیہ چلے گئے ۔۔۔ محمد یعقوب قادری ، حافظ محمد تقی ، پیر محمد پیرل ، حافظ محمد افضل ، مفتی مسعود خالد ،  عبدالرحمن رضا  ، محمود اختر جوئندہ، حمایت علی چوہدری ،اور دوسرے بے شمار ساتھی شہادت کا تاج پہن کر اللہ کے پاس چلے گئے ۔۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھئے آج  میاں عبدالرشید بھٹی ، خواجہ مزمل ، وحید مغل ، خواجہ ناصر رحمانی ، طالش عقیل میرانی ، ڈاکٹر عبد الشکور ، فیاض چوہدری،حافظ محمد سلیم فیصل آباد مرزا ارشد القمر ( جڑانوالہ ) ہم سے جدا ہو گئے ۔۔۔  چوہدری نصراللہ وڑائچ ، وقار عظیم آصف ، غلام احمد اعوان ( سرگودھا ) ،  عبدالمجید بھٹی ( راولپنڈی ) ،  اشفاق چوہدری ( وزیرآباد ) ،  مخدوم الطاف قریشی ( مظفرگڑھ ) ، شیخ انور مصطفائی ( خانیوال ) ، پیر قطب علی شاہ ( لودھراں ) ،  فدا حسین منہاس ( اوکاڑہ ) ،  راجہ اعجاز ( پنڈ دادنخان ) ، دانیال احمد ناصر  ( کراچی ) کو بے رحم موت نے ہم سے چھین لیا ۔۔۔ اسحاق ظفر ( مظفرآباد ) ،  چوہدری اکرام چیمہ ( بہاولپور ) ،  خالد عثمانی ( لاہور ) ، حافظ نور محمد ( سیالکوٹ ) ، ڈاکٹرمحمد اشرف شیرانی ، سید کاشف انجم بخاری ( تاندلیانوالہ ) آج ہم میں نہیں رہے ۔۔۔
دوستو ! ہمارے ساتھ تنظیمی کام کرنے والے ہمارے ہم عصر نہیں رہے تو ہم بھی اور کتنا جی لیں گے ۔۔۔ سچ یہی ہے کہ ہم سب زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں ۔ کسی وقت بھی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گی ۔۔۔ کاش ہم مرنے سے پہلے ایک بار پھر ایک ہو جائیں ۔۔۔ یاد خیر البشر کے رشتہ سے بنیاد دوستی رکھنے والو ، یاد رکھو ! انسانوں کو جنازوں سے پہلے بھی کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے  ۔۔ آو جنازوں کو کندھا دینے سے پہلے آج  کندھے سے کندھا اور دل سے دل ملا لیں ۔۔۔ میں انتہائی دردمندی اور عاجزی کے ساتھ لاہور ، کراچی ، راولپنڈی ، امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھے اپنے پیارے لیڈروں سے ، اپنے بڑوں سے ہاتھ جوڑ کر اور شہداء انجمن کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہوں کہ بھلے لوگو ! مرنے سے پہلے پھر سے ایک ہو جاو ، سب کو ایک کر دو ۔۔۔ گنبد خضری کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں کے نعرے کو سچ ثابت کر دو ۔۔۔ ختم کر  دو انائیں ۔۔۔ توڑ دو بت خود پرستی کے ۔۔ چھوڑ دو ضدیں اور ہٹ دھرمیاں ۔۔۔  چند  سازشی عناصر کے نرغے سے باہر نکلو اور سب کو گلے لگا لو ۔۔۔ ہم جیسے کارکنان کے ساتھ داتا حضور کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر اکٹھے جینے مرنے کا مقدس عہد مت بھولو ۔۔۔ قائدین کرام ! یاد رکھو ، آپ کی جذباتی تقریریں سن کر ہزاروں نہیں  لاکھوں غریب مسکین کارکنان نے اپنا مستقبل داو پر لگایا تھا ۔۔۔۔  تمہارے لئے لہک لہک کر زندہ باد کے نعرے لگانے والے وہ سب مخلص کارکنان آج نہ جانے  کن کن گمنام بستیوں میں افلاس کے اندھیروں میں غربت کی ذلت و اذیت سہہ رہے ہیں ۔۔۔ ان کے جنازوں کو کندھا دینے سے پہلے آج ان کے لئے کندھا بن جاو ۔۔۔ خدا را ، ٹوٹی ہوئی مالا کو پھر سے جوڑ دو ۔۔



 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.