اہم خبریں

مصطفائی تحریک کے یوم تاسیس کے موقع پر خصوصی تحریر از معین نوری

مصطفائی تحریک کے یوم تاسیس کے موقع پر خصوصی تحریر
 معین نوری
 
انجمن طلبہ  اسلام، وطنِ عزیز کے محب ِ وطن طلبا کی ملک گیر تنظیم ہے جو طلباء میں محبت رسول ﷺ اور خدمت ِ انسانیت کے جذبو ں کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی ابتدا (1968ء) سے ہی سر گرمِ عمل ہے۔جو طلبا اپنی تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، انجمن، ایسے افراد کو سابق/رفیق قرار دے کر اُن کو تنظیم سے فارغ کر دیتی ہے۔عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعدان کا تنظیم سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ۔اگر اُنہیں خود دلچسپی نہ ہو تو  انہیں انجمن کے معاملات کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔اورعموماً اچھا خاصا تحریکی فرد عدم رابطے کی وجہ سے تنظیم، تحریک، تبدیلی اور انقلاب، سب سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ اپنے دور ِ طالب علمی میں نمایاں تحریکی و تنظیمی کردار ادا کرنے والے، بعد میں غم ِجاناں اور غمِ دوراں کی نذر ہوکر کوچہء گمنامی کے مکیں بن جاتے ہیں۔
 اس کےباوجود انجمن کے متعدد سابق کارکنان,انجمن سے فراغت کے بعد بھی مختلف تنظیموں اور اداروں کو اپنی بھرپور توانائیاں فراہم کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض ایسے سابقین  بھی ہیں جنہوں نے ملک و بیرون ملک مختلف سطوح پر مختلف قسم کے ادارے قائم کیے اور وہ اب تک بھرپور تنظیمی و سماجی زندگی گزاررہے ہیں۔
تاہم انجمن کے داخلی تنظیمی ماحول کے باعث رفقاء ِانجمن کی فکر بھی کسی حد تک شخصیت پرستی کے رجحان سے خالی اور اجتماعی،مشاورتی اور جمہوری انداز کی حامل رہی ہے، جس کے سبب ان کے لیے ہر تنظیم اور ہر رنگ میں ڈھلنا خاصا دشوار ثابت ہوا ہے۔
  انجمن طلبہ اسلا م کے رفقاء (سابقین) کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور انھیں ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے۔ اس ضمن میں کئی مرتبہ اے ٹی آئی اور رفقاء ِ انجمن کے مختلف اجلاس منعقد ہوئے۔ سابق صدرِ انجمن محمد اقبال اظہری (متوفی15اپریل2014ء)  بتاتے ہیں ”یہ 1976ء کی بات ہے۔ انجمن کی صدارت سے فارغ ہونے کے بعد میں نے رفقاء کی تنظیم کی ضرورت کا ذکر امجد علی چشتی سے کیا اوراس مقصد کے لیے ہم کراچی آئے۔ احمد عبد الشکورمرحوم کے گھر واقع ایف بی ایریا میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں محمد یعقوب قادریؒ، احمد عبدالشکورؒ، محمد حنیف حاجی طیب، عبدالستار اسماعیل، شکیل احمد صدیقی  ؒ، امتیاز خان، عطاالمصطفیٰ نوری ؒ، محمد عثمان خان نوری اور امجد علی چشتی نے بھی شرکت کی۔ سب راضی تھے مگر حنیف صاحب نے کہاکہ”نورانی صاحب ناراض ہوں گے اور اس سے جے یو پی کا کام متاثر ہوگا“، اس وجہ سے رفقاء کی یہ تنظیم نہیں بن سکی“ (انٹر ویو: محمد اقبال اظہری، ماہنامہ مصطفائی نیوز، کراچی، دسمبر 2008ء)۔  
 ایک کوشش 1976ء میں اس وقت ہوئی جب 31-30 اکتوبر1976ء کو کراچی میں منعقدہ مشاورت کے اجلاس میں سابقین ِ انجمن کی”مجلسِ معاونین“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس کے بعد بھی انجمن کے رفقاء کو پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔اس مقصد کے لئے، اہلسنت ویلفیئر سوسائٹی، کراچی(1981ء)،مجلس رفقاء(1981ء)، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی(1984ء)  محاز اسلامی (1985) اور مجلس رفقاء اسلام(1985ء) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
مصطفائی تحریک کا قیام
مورخہ7دسمبر1990ء کوا نجمن طلبہ اسلام کے سابق صدر حمزہ مصطفائی کی شادی کے موقع پر رفقاانجمن کو اسلام آبا د میں پھر مل بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ اس غیر رسمی اجلاس میں ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نور ی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ رفقاء انجمن کی تنظیم کے لیے، رفقاء کا اجلاس طلب کریں۔اس ضمن میں کئی نشستیں و مشاورتیں ہوئیں، بالآخیر ایک اجلاس بروز جمعہ مورخہ 26جولائی 1991ء کو ادارہ تعلیماتِ اسلامیہ راولپنڈی میں طلب کیا گیا جس میں ان افراد نے شرکت کی:۔
اسلام آباد سے ڈاکٹر محمد ظفراقبال نوری، میاں فاروق مصطفائی، محمد اسلام نشتر اور محمد اسلم الوری۔ راول پنڈ ی سے احمد وقار مدنی، شاہد حنیف، خواجہ صفدر امین اور حمزہ مصطفائی۔ کراچی سے محمد حنیف حاجی طیب، محمد اشرف لودھی۔جہلم سے نیاز احمد چودھری،محمد رشید چودہری، محمد زاہد ساہی۔ سیالکوٹ سے رشید تابانی۔ گوجرانوالہ سے اشفاق احمد چودھری۔ سرگودھا سے غلام مر تضیٰ سعیدی۔ لاہور سے محمد طاہر انجم۔ ملتان سے ڈاکٹر محمد تسلیم قریشی، وسیم ممتاز ایڈووکیٹ۔ میانوالی سے محمد اشفاق چغتائی (مرحوم)۔ مظفر آباد سے سید صابر حسین ترمذی اور کوٹلی سے محمد اسحاق ظفر۔
 اس اجلاس میں ”مصطفائی تحریک“ کے نام سے رفقاء انجمن کی تنظیم کا قیا م عمل میں لایا گیا۔تنظیم کا مرکزی امیر، ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری اور جنرل سیکریٹری احمد وقار مدنی کو منتخب کیا گیا۔
 ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری،مصطفائی تحریک کے قیام کے مقاصدپر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ”اُس وقت کچھ دوستوں کا ارادہ تھا کہ فوری طور پر سیاسی میدان جوائن کیا جائے جبکہ میری رائے تھی کہ فور ی طور پر سیاسی میدان جوائن کرنا مشکل ہے۔۔۔پہلے سماجی بہبود اور تعلیم کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ دس سال میں انشاء اللہ تمام ملک میں ہمارا کام اتنا ہوجائے گا کہ اے ٹی آئی کے سابقین کی ایک شناخت اور ایک نام ہوگا، جس سے ان کی کریڈ     یبلٹی بڑھے گی۔ پھر اگرخدا نخواستہ یہ حضرات (علامہ شاہ احمد نورانی،مولانا عبدالستار خاں نیازی اور پروفیسر محمد طاہر القادری) ناکام ہوتے ہیں تووہ موقع ہوگا کہ لوگ خود ہمیں کہیں گے کہ آپ لوگوں نے اِن دوشعبوں میں اتنا اچھا کام کیا ہے توآئیے سیاست کے شعبے میں بھی کام کریں۔ پھر انشاء اللہ پورے ملک میں ہماری شاخیں ہوں گی اور معاشرے میں ہمارا نام ہوگا“(انٹر ویو: ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری، نوائے انجمن، مارچ2008ء)۔ڈاکٹر نوری ایک گفتگو میں مزیدکہتے ہیں ”ترکی والوں نے سب سے پہلے خدمتِ خلق کی اور وہاں سے رفتہ رفتہ بیس پچیس سالوں میں سیاست کے ایوانوں میں جا پہنچے۔ ہم اس سفر کا آغاز نہ کرسکے، ابھی کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سماجی کام کے ساتھ ساتھ ہمیں سیاسی محاذ پر بھی اپنے آپ کو متحرک کرنا ہو گا“ (ماہنامہ مصطفائی نیوز، کراچی، اکتوبر2012ء، صفحہ 11 }
1993-1994میں  غلام مرتضی سعید ی، مصطفائی تحریک کے جنرل سیکریٹری رہے۔ظفر اقبال نوری کے امریکا جانے کے بعد 14جون1998ء کو لاہور میں منعقدہ اِجلاس میں تنظیم کے دوسرے امیرکی ذمہ داری حافظ طارق محمود رضا اور جنرل سیکریٹری کی شمس المصطفیٰ اسدی کو سونپی گئی۔ انجمن کے متعدد کارکنان و رفقاء اس موقع پر ڈاکٹر نوری کے ترکِ وطن کے فیصلے کو، ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ نوری صاحب کو بھی دوسروں کی طرح اپنے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ ڈاکٹر نوری نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار نہیں کی اور وہ امریکا میں ”پیس مشن“ کے تحت اب بھی دینی،سماجی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول و متحرک ہیں۔  
1-2،اگست1998ء کو جامعہ نعیمیہ لاہور میں منعقدہ، مصطفائی تحریک کی مرکزی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں ”مصطفا ئی تحریک“کے دستور العمل کی منظوری دی گئی، جس میں تحریک کا نصب العین ”مصطفائی معاشرے کا قیام جو امن و سلامتی، عدل و انصاف، ترقی و خوشحالی اور فلاح و نجات کا ضامن ہے“، درج کیا گیا۔ جبکہ تحریک کا دستور، اس کے قیام کے 17سال بعد، اگست2008ء میں باقاعدہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو سکا۔ مصطفائی تحریک کا پہلا مرکزی کنونشن ”عظیم تر پاکستان کنونشن“کے عنوان سے 16اگست 1998ء  کو الحمرا ہال لاہور میں ہوا، جب کہ سندھ سطح پر’’نوید رحمت کنونشن“ 22نومبر 1998ء کو کراچی میں منعقد ہوا۔ 24 اکتوبر 1999ء کو مر کزی اجلاس منعقدہ لاہور میں تحر یک کے تیسرے امیر ڈاکٹر عبدالرحیم اور سیکریٹری جنرل سلیم ہاشم نامزد ہوئے۔5نومبر 2000ء کو الحمرہ ہال لاہور میں منعقدہ مرکزی”جاگ رہا ہے پاکستان کنونشن“ میں جناب غلام مرتضیٰ سعیدی، تحریک کے مرکزی امیراورجاویداقبال صدیقی مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب کئے گئے۔6-5اپریل2003ء کو جامع مسجد انوار ِ رسالت فیصل ٹاؤن لاہور میں مرکزی ”تجدید ِ عہدِ وفا کنونشن“ ہوا جس میں محمد یعقوب قادری(شہیدیکم اگست2013ء، نواب شاہ) کو تحریک کا مر کزی امیر اور خواجہ صفدر نوری کو مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ 23-22مارچ2005ء کو راولپنڈی میں منعقدہ مرکزی ”مصطفائی رضا کار کنونشن“ میں میاں فاروق مصطفائی، مصطفائی تحریک کے مرکزی امیر اور جاوید مصطفائی مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
18اکتوبر2006ء کو  میاں فاروق مصطفائی نے تنظیم ِ نو کے لیے مصطفائی تحریک کی تمام سطح کی انتظامی کمیٹیاں توڑنے کا اعلان کیا، جس سے بعض احباب نے عدم  اتفاق کرتے ہوئے 9 نومبر 2006 ء کو محمد یعقوب قادری کو مرکزی امیر اور جاوید اقبال صدیقی کومرکزی سیکریٹری جنرل نامزد کیا۔اس موقع پر مصطفائی تحریک کے دو گروپ رہے۔ تاہم بعد میں فاروق مصطفائی کی امارت پر اتفاق کر لیا گیا۔ مئی 2007 ء میں تحریک کا اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس جامعہ قادریہ فیصل آباد میں ہوا جس میں ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، غلام مرتضیٰ سعیدی، ڈاکٹر حمزہ مصطفائی، ڈاکٹر جاوید صدیقی، پروفیسر ندیم احمد اشرفی، مقصود گیلانی، سید صفدر شاہ اور امانت علی زیب نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ آ یندہ ایک سال کے لیے فاروق مصطفائی، تحریک کے مرکزی امیر اور سید محمد صفدر شاہ  سیکریٹری جنرل ہوں گے۔ مرکزی امیر و سیکریٹری  جنرل کے باہمی مشورے سے مرکزی کابینہ تشکیل دی گئی۔ بعد ازاں انتظامی عہدوں کی مدت میں اضافہ کیا گیا۔ 5مئی 2012ء کو میاں فاروق مصطفائی کی زیر صدارت لاہور میں منعقدہ اجلاس میں سید محمد صفدر شاہ کو تحریک کی سیکریٹری جنرل شپ اوررکنیت سے سبکدوش کر کے ممتاز ربانی ایڈووکیٹ کو قائم مقام سیکریٹری جنرل نامزد کیا گیا۔
24 ستمبر2017 ء کو لاہور میں منعقدہ انتخابی اجلاس میں غلام مرتضی سعیدی، تحریک کے مرکزی صدر اور حافظ محمد قاسم مصطفائی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔22دسمبر2019ء کو غلام مرتضی سعیدی اور حافظ قاسم مصطفائی دوبارہ تحریک کے بالترتیب مرکزی امیر و سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
 انجمن طلبہ اسلام کے رفقاء کو متحرک و منظم کر نے کے لیے مصطفائی تحریک نے بہت محنت کی اور اس کے لیے کئی عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد اور منصوبوں کا اجراء کیا۔اس ضمن میں جہاں اور لوگوں کا مختلف انداز کا تعاون شامل رہا وہاں شیخ محمد طاہر انجم اورمحمد عا بد قادری کی  مالی سرپرستی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔مصطفائی تحریک نے سماجی خدمت کے شعبے میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ 2012ء میں معمول کی سماجی خدمات و تنظیمی سرگرمیوں کے علاوہ خصوصی پروگرام منعقدکیے گئے۔ یکم جنوری2012ء کو مریم ہال کراچی میں مصطفائی رضا کار کنونشن،20ستمبر کو گوجرانوالہ میں مصطفائی ایمبو لنس سروس کا افتتاح اور مصطفائی رضا کار کنونشن کا انعقاد اور 30ستمبر 2012ء کو ایوانِ اقبال لاہور میں ”سدا سلامت پاکستان سیمینار“ کا انعقاد کیا گیا۔اس کے علاوہ کئی مواقع پر مصطفائی تحریک کے
”مصطفائی برادرز“ نے متحرک کردار ادا کیا۔
 مصطفائی تحریک نے معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے مصطفائی فاؤنڈیشن بھی قائم کی جس کے تحت ملک بھر میں 100سے زائد مصطفائی ماڈل اسکولز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ علاوہ ازیں پاہڑیانوالی ضلع منڈی بہاؤ الدین میں ڈاکٹر میاں محمد صدیق  ارائیں نے مصطفائی گرلز کالج اورفیصل آباد میں مرحوم عطاء المصطفیٰ نوری نے مصطفائی خواتین کالج جیسے معیاری تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ مصطفائی سکولز مستقبل کے معماروں کو، تعلیم و تربیت کے جوہر اور تعاون و ہمدردی کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ اُن میں ایک ولولہ تازہ پید کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان اسکولوں میں ہر ماہ پیر کے روز ”یومِِ النبی“ منا یا جا تا ہے، جس کا مقصد مسلمان طلبہ میں اپنے نبی سے محبت کے جذبوں کو پروان چڑھا نا ہے۔ تحریک ہر سال مستحق طلبہ میں نصابی کتب اور اسکول بیگ کی تقسیم کے پروگرام بھی منعقد کرتی رہتی ہے۔
فاؤنڈیشن نے ہم خیال تنظیموں کے شانہ بشانہ 2005ء کے زلزلے، 2010ء کے دریائی سیلاب اور 2011ء کی تباہ کن بارشوں میں متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے یاد گار خدمات سر انجام دیں، جنہیں اعلیٰ حکام اور صاحبانِ فکر و دانش نے دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا۔ مصطفائی کمیونٹی ڈیو یلپمنٹ پروگرام کے تحت خدمت ِانسانیت کاایک اہم کام، لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کرنا ہے، جس کے تحت دور دراز کے غریب علاقوں میں کنویں کھدوائے گئے اور پانی صاف کرنے کے پلا نٹس نصب کئے گئے۔  
 مصطفائی فاؤنڈیشن و مصطفائی تحریک نے اگست1997ء میں محمد اسلم الوری کی کتاب ”مثالی سکول کیسے قائم کریں؟ اور اپریل2000ء میں ”فلاحی منصوبے کیسے بنائیں؟“ شائع کیں۔ 1997ء میں خواجہ صفدر امین نے تحریک کی سرگرمیوں پر مشتمل ماہانہ خبرنامہ”تگ و تاز“ راولپنڈی سے جاری کیا۔ پھر2008ء میں کراچی سے ماہنامہ مصطفائی نیوز کا اجراء کیا گیا، جس کے چیف ایڈیٹر محمد عابد قادری ضیائی اور ایڈیٹر صفدر نوری ہیں جبکہ کچھ ماہ سے محمد اسلم الوری اعزازی مدیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔مصطفائی نیوز کا محمد یعقوب قادری نمبر (ستمبر2013ء)، قومی زبان نمبر (نومبر2015ء)،عطاء المصطفیٰ نوری نمبر (جنوری فروری2016)اور ممتاز قادری شہید نمبر (مارچ،اپریل2016ء) تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم مصطفائی نیوز تعطل کا شکار ہے۔ مصطفائی تحریک نے اپنے تعارف کے علاوہ، کئی کتابچے بھی شایع کئے ہیں۔ مثلاً  نظام مصطفی،مصطفائی معاشی پروگرام وغیرہ۔
  انجمن کے کارکنا ن و سابقین کبھی مصطفائی تحریک، مصطفائی فاؤنڈیشن، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی نیٹ ورک، المصطفیٰ ٹرسٹ،مصطفائی ٹرسٹ انٹرنیشنل، المصطفیٰ ایجوکیشنل سوسائٹی، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی پاکستان،شیڈ فاؤنڈیشن، پاکستان فلاح پارٹی اور دیگر پلیٹ فارموں پر سرگرم ہیں۔ بعض پروگراموں میں تو کئی کئی تنظیموں کے بینروں کی بہار نظر آتی ہے۔بعض اوقات ایک ایک کارکن دوستیوں کے کئی تقاضے نبھانے میں مصروف نظر آتا ہے۔
ایک ہاتھ، مصطفائی تحریک میں ہے تو دوسرا، کسی المصطفیٰ میں۔ ایک ٹانگ فلاح پارٹی میں ہے تو دوسری  کسی فاؤنڈیشن میں۔ جبکہ تیسری طرف کاندھوں پر ذاتی،سماجی اور گھریلو مسائل کا انبار ہے، جس سے ایک کارکن کو تنہا ہی نمٹنا ہے۔
جس طرح دعوت اسلامی میں بہت سے چیزیں لفظ ”مدنی“سے اور جمعیت علماء پاکستان میں لفظ ”نورانی“ سے منسوب ہیں، اسی طرح مصطفائی تحریک میں کئی چیزیں ”مصطفائی تحریک“ کے لفظ سے منسوب ہیں۔ مثلاً مصطفائی ریلی، مصطفائی لنگر، مصطفائی برادری، مصطفائی معاشرہ،مصطفائی اسکول،مصطفائی کنونشن، مصطفائی رضا کار، مصطفائی نیوز وغیرہ۔
 دوسری تنظیموں کی طرح مصطفائی تحریک کو بھی معاشرے میں پھیلی بدگمانیوں اور رنجشوں کی ہواؤں نے متاثر کیا ہے۔ رنجشوں کا مظہر، نئے نئے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔بعض جگہ اختلاف ِ رائے اخلاص اور اصولوں کی بنیاد پر ہے تو بعض جگہ بغض اور مخالفت برائے مخالفت کا باعث۔ صورتحال چوں چوں کا مربہ محسوس ہوتی ہے اور ایک عام ورکر کے لئے الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔
مصطفائی تحریک کے مرکزی امیر میاں فاروق مصطفائی اس صورتحال کا شکوہ ان الفاظ میں کرتے ہیں : -
”جہاں تک مصطفائی تحریک کا تعلق ہے وہ بھی سست روی کے باوجود اپنے نصب العین کے حصول کے لئے مصروفِ تگ و تاز ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے ساتھ برادران ِ یوسف والا سلوک کیا اور اِس کی راہ میں روڑے اٹکائے(مصطفائی نیوز، کراچی،اکتوبر2009ء، صفحہ 10)۔

 مصطفائی تحریک اور اے ٹی آئی
 چونکہ انجمن طلبہ اسلام کے رفقاء ہی مصطفائی تحریک کے بانی وذمہ داران ہیں،اس لیے اکثر مقامات پر دونوں تنظیمیں باہم شیر وشکرہیں اور مل جل کر کام کر رہی ہیں۔ تحریک کے اکثر عہدیدار، انجمن کے سابقین ہی رہے ہیں۔ راولپنڈی میں مصطفائی تحریک کا دفتر انجمن کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا توکراچی میں انجمن کا مرکزی دفتر تحریک کی سرگرمیوں کا مرکزرہا۔ انجمن اور مصطفائی تحریک اپنے پروگراموں اور مطبوعات میں ایک دوسرے کو جگہ دیتے آئے ہیں۔ بعض اوقات انجمن کے سرکلر کے ساتھ مصطفائی تحریک کا سرکلر /لٹریچر منسلک کرکے ارسال کیا گیا۔ مصطفائی تحریک کا پرچم بھی انجمن کے پرچم سے مشابہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ انجمن کے پرچم میں جہاں سیدی یارسول اللہ والا گول مونو گرام ہے، مصطفائی تحریک کے پرچم میں وہاں ”المصطفیٰ“ تحریر ہے۔ تاہم بعض جگہوں پر اے ٹی آئی اور مصطفائی تحریک کے درمیان بد اعتمادی کی فضاء بھی قائم ہوئی جسے بعض اوقات دور کر لیا گیا۔
انجمن طلبہ اسلام کی مجلس مشاورت کے مختلف اجلاسوں میں بھی انجمن اور مصطفائی تحریک کی پالیسیوں اور اشتراکِ عمل کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔مگر انجمن کے دستور میں مصطفائی تحریک کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ مصطفائی تحریک نے انجمن طلبہ اسلام کے ساتھ اپنی قرابت کو باقاعدہ دستوری حیثیت دے رکھی ہے۔مصطفائی تحریک کے دستور کا ابتدائیہ انجمن طلبا اسلام سے شروع ہو تا ہے۔ علاوہ ازیں دستور کے حصہ دوم میں دفعہ 6کی شق ii میں انجمن کا ذکر ان الفاظ میں ہے ”فروغ عشقِ مصطفی ﷺ کے لیے سرگرم ِ عمل کسی بھی تنظیم بشمول انجمن طلبہ اسلام سے فراغت پانے والا ہر کارکن /امین/رکن، مصطفا ئی تحریک کا اعزازی رکن متصور ہوگا۔ تا ہم باقاعدہ رکنیت کے لیے اسے قرطاسِ رکنیت پُر کرکے مقامی صدر کو پیش کرنا ہوگا“۔
مصطفائی تحریک کے قیام کو 31سال ہونے کو آئے۔ اس عرصے میں اگرچہ اس کے مطلوبہ اہداف پورے نہیں ہو سکے مگر اس کے باوجود مختلف محاذوں پر تحریک کی مساعی کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔اس دوران تحریک کو جہاں عقیدتوں، عداوتوں اورتبدیلیوں کے مختلف مزاجوں اور موسموں کا سامنا کر نا پڑا، وہاں اس سفر میں کئی آفتاب بھی غروب ہو گئے۔ ان میں محمد یعقوب قادری ؒ، حافظ محمد تقی شہید، احمد عبدالشکور ؒ، عطاء المصطفیٰ نوری  ؒ، پروفیسر محمد اشفاق چغتائی ؒ  اور دیگر کئی شخصیات شامل ہیں جن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
  نفسا نفسی اور عقیدت و عداوت کی کشمکش کے اس ماحول میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت پر مبنی دینی شناخت کے ساتھ مصطفائی تحریک نے مختلف انداز میں جو یاد گار قومی و سماجی خدمات انجام دی ہیں، اُنھوں نے نہ صرف ضرورت مند وں کی اشک شوئی کی اور دکھی دلوں کے زخموں پر مرہم رکھا بلکہ ان سے اسلام کا مثبت، خوشگوار، پرامن اورانسان دوست تشخص بھی اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے جو بعض فرقہ پرست اور دہشت گرد عناصر کی تشدد آمیز کارروائیوں کے باعث بدنام ہو چلا تھا۔


 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مصطفائی نیوز Designed by # Copyright © 2014

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.