شہر محبت بریلی شریف حاضری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اسلم الوری
بیس برس ہوئے ستمبر کے یہی خوشگوار دن تھے۔ گرمی کی تپش اور حبس کم ہورہا تھا اور سرما کی خنکی فضا میں آہستہ آہست رس رہی تھی۔ ہم خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی کی دلی سے کل ہی بذریعہ ریل کھاٹ گودام سے ہوتے غازی پور پہنچے تھے۔ آج جمعہ کا مبارک دن تھا اور مسافرت کے باوجود نماز جمعہ چھوڑنے کو دل مانتا نہیں تھا۔ ہمارے گائیڈ معراج صدیقی نے بتایا گھبرائیے نہیں ہم جمعہ کی نماز شہر کی جامد مسجد میں باجماعت ادا کریں گے۔ ہوٹل کے قریب غازی پور شہر کی ایک جامع مسجد میں جمعہ المبارک کی نماز ادا کرنے کے لیے پہنچے تو ایک شعلہ بیان نوجوان عالم خطاب فرمارہے تھے۔گرجدار آواز پراعتماد لہجہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار شیریں زبان ۔۔دوران خطاب امام احمد رضا خان بریلوی رح کے نعتیہ اشعار پڑھے تو مجھے ایسے لگا جیسے اس شہر کے ماحول میں چمنستان رضا کی خوشبو رچی ہے۔
جمعہ کی نماز کے بعد جھوم جھوم کر بڑے والہانہ انداز میں بارگاہ رسالت میں سلام رضا مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام پیش کیا گیا۔ اس کے بعد خطیب صاحب نے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگی۔ دعا میں مسلمانان عالم کی فتح و نصرت اور شکست کفاراں کے جملوں نے مجھے حیرت زدہ کردیا کہ کفرستان ہند میں بسنے والے مسلمان آج بھی کس قدر غیوروجسور ہیں کہ بلا خوف و خطر کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ اب تو میرا گمان یقین میں بدل گیا کہ شہر محبت بریلی شریف ضرور یاں سے قریب ہے اور یہ سب امام عاشقاں امام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا فیضان نظر ہے۔ میں نے نماز جمعہ کے بعد اپنے میزبان سے ذکر کیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ پورا شہر مفتئ اعظم ہند کا ارادت مند ہے اور وہ خود بھی اعلی حضرت رح کے صاحبزادے مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی رح سے بیعت ہیں۔
یہ سننا تھا کہ میں نے فورا دوسرا سوال داغ دیا۔ معراج بھائی کیا بریلی شریف یاں سے قریب ہی ہے؟ ہاں بس یہی کوئی 3 گھنٹے کی مسافت پر ۔ وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوئے ۔ تو کیا آپ جانا چاہتے ہیں؟ بس 3 گھنٹے کی دوری پر۔ ۔میرے من میں جیسے تاجدار بریلی کی چوکھٹ پر حاضری کی تمنا یکایک جاگ اٹھی ہو۔ میں نے دل میں سوچا، بس 3 گھنٹے کی مسافت۔۔تو کیا پھر بھی ہم شہر محبت میں عاشق صادق کے آستاں پر حاضری کی حسرت دل میں لیے یہیں سے واپس لوٹ جائیں گے۔ ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک اور ساتھی بولے" تو بھیا ابھی 2 بجے ہیں ، کیا ہم ابھی اعلی حضرت کے مزار پر انوار پر حاضری کے لیے جاسکتے ہیں ؟" کیوں نہیں ۔ معراج نے جواب دیا۔ "میں ابھی ڈرائیور کو بلاتا ہوں وہ بھی اعلی حضرت کا دیوانہ ہے ، اکثر بریلی شریف جاتا رہتا ہے اور راستوں سے بھی خوب واقف ہے۔ وہ آپ کو لے جائے گا"
لو پھر تو بات بن گئی۔ امام عاشقان کا بلاوا آگیا ہے۔ ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور ڈرائیور کے آنے سے پہلے ہی تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ غلام مصطفی رند، سردار غلام مصطفی ، ڈاکٹر ریاض مان اور شاہ جی سب کے سب جانے پر مصر تھے لیکن گاڑی میں تو صرف 4 افراد کی گنجائش تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا مجھے بمشکل گاڑی میں پھنس کر بیٹھنا پڑا۔
غازی پور اترانچل میں ہےاور
بریلی اتر پردیش میں۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضا نے اس کے ماحولیاتی حسن کو اور بھی چار چاند لگادئیے ہیں۔ لیکن ہندو اکثریتی آبادی پر مشتمل شہر بریلی شریف کی اصل پہچان اس عظیم عاشق رسول فقیہ اعظم اور امام اہل سنت کے حوالے سے جسے اہلیان بریلی بڑے مولوی صاحب اور مسلمانان عالم آعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اعلی حضرت کا مسکن پرانا بریلی سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہندو اکثریتی آبادی محلہ سوداگران میں واقع ہے۔ یہی وہ کوچہ جاناں ہے کہ دنیا بھر سے اعلی حضرت کے لاکھوں دیوانے اس طرف پروانہ وار کھچے چلے آتے ہیں۔ اعلی حضرت نے 1856ء میں ایک ممتاز علمی و روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی اور 25 صفرالمظفر / 28 اکتوبر 1921ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ نے 1904ء میں دارالعلوم منظر اسلام کے نام سے ایک بلند پایہ اور اعلی معیار کی علمی و دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی۔ یہ درس گاہ اور درگاہ اعلی حضرت قریہ عشق مصطفی ہے۔ چند کمروں پر مشتمل یہ وہ مقدس دانشگاہ اور روحانی تربیت گاہ ہے جہاں سے علم و معرفت کا ایسا چشمہ جاری ہوا جس نے پورے برعظیم کے تشنگان علم کو سیراب کردیا۔ یہی وہ خانقاہ ہے جہاں سے مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم صدیقی، حجتہ الاسلام مولانا حامد رضاخاں بریلوی مفتی اعظم ہند مصطفی رضاخان بریلوی، جامعہ علی گڑھ کے نامور متکلم اور ماہر تعلیم پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری مولانا عبدالسلام جبل پوری ، پاکستان نام کے خالق مولانا برہا ن الحق جبل پوری ملک العلماء سید ظفرالدین بہاری فقیہ اعظم علامہ محمد یوسف کوٹلوی مفتی امام الدین کوٹلوی اور مفتی محمد شریف کوٹلوی صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی فقیہ ہند مولانا سید دیدار علی شاہ الوری اور ان کے فرزندان ارجمند علامہ سید ابوالحسنات محمد قادری اور مفتی اعظم پاکستان سید ابوالبرکات احمد قادری اور کشتہ عشق رسول محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد علیہ رحمہ والرضوان جیسے ممتاز علماء فقہا اور روحانی ہستیوں نے فیض پایا۔ اس شہر محبت کے آسمان علم و معرفت پر سینکڑوں آفتاب و مہتاب طلوع ہوئے جن کے فیضان نور سے ہند کا قریہ قریہ جگمگا اٹھا۔
خیر شوق دیدار اور وفور عقیدت سے معمور یہ مختصر کاروان عقیدت شہر محبت بریلی شریف پہنچا تو سورج ڈھل چکا تھا۔ محلہ سوداگراں پہنچتے پہنچتے مغرب کی ازان ہوگئی۔ ہم گاڑی سے اترے اور بھاگ کر جماعت میں شامل ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی تو پتا چلا کہ یہ مفتی اختر رضاخاں رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کی اقتدا میں ہم نے نماز مغرب ادا کرنےکا شرف حاصل کیا تھا۔ ہم نے انہیں مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا اور نیت تھی کہ نماز کے بعد ان سے شرف ملاقات حاصل کریں گے۔ باہر نکلے تو دارالعلوم کے ایک نوجوان استاد اور مفتی غالبا مفتی شہاب رضوی نام تھا ہمارے منتظر تھے۔ رسمی تعارف کے بعد انہوں نے بتایا کہ مفتی اختر رضا خاں صاحب ہمارے نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی کسی پہلے سے طے شدہ پروگرام میں شرکت کےلیے تشریف لے جا چکے ہیں اور اب دیر سے واپس لوٹیں گے۔ رضوی صاحب دربار اعلی حضرت میں حاضری کے لیے آپ کے مزار پر انوار پر لے گئے۔ سیاہ سفید دھاری دار گنبد کے نیچے صحن نما احاطہ میں ایک آہنی چوکھٹا کے وسط میں اپنے دو صاحبزادگان یعنی مولانا حامد رضا خاں اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضاخاں کی قبروں کے درمیان ایک بالشت اونچی آپ کی قبر مبارک ہے جس تک ہاتھوں کی رسائی ممکن نہیں۔ زائرین اس احاطہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی فاتحہ پڑھتے ہیں۔ مزار شریف پر ہروقت دنیا کے کونے کونے سے آئے عشاق رسول کا ہجوم رہتا ہے اور فضا درودوسلام اور مصطفی جان رحمت کے نغموں سے معمور رہتی ہے۔
ہم فاتحہ سے فارغ ہوئے تو میزبان ہمیں گھر سے باہر کی طرف واقع ایک چھوٹی سی بیٹھک میں لے گئے اور مشروبات سے ہماری تواضع کی۔ انہوں نےبتایا یہی وہ جگ ہے جو اعلی حضرت رح کی نشست گاہ تھی ۔
یہاں بیٹھ کر ہی آپ فتوی نویسی کا کام کرتے تھے اور مفتی اعظم ہند کے وصال کے بعد اب یہاں مفتی اختر رضاخاں رح تشریف رکھتے ہیں۔ سچ فرمایا تھا امام عاشقاں نے :
نہ مرا نوش ز تحسین نہ مرا نیش ز طعن
نہ مرا گوش بمدحے نہ مرا ہوش ذمے
منم و کنج خمولے کہ نہ گنجد دروے
جز من و چند کتابے و دوات و قلمے
مفتی صاحب نے ہمیں دارالعلوم اور خانوادہ اعلی حضرت کی دینی علمی اور سیاسی و سماجی خدمات کے بارے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ہم نے دارالعلوم کے لیے حسب توفیق عطیات پیش کیے اور مفتی صاحب نے دعا فرمائی۔ مفتی اختر رضاخاں بریلوی رح سے شرف ملاقات نہ ملنے کا قلق دل میں لیے ہم نے رخصت چاہی اور رات دیر گئے واپس ہوٹل پہنچے۔
انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ امام احمد رضا بریلوی نے ایک کنال سے بھی کم رقبہ پر محیط دارالعلوم منظر اسلام میں بیٹھ کر قوت عشق رسول سے جہالت و گمراہی، بدعات و خرافات اور بدعقیدگی کی پستیوں میں گرفتار مسلمانان ہند کو خودداری ، حریت فکر و عمل ، محبت رسول ، معرفت اولیاء کی سربفلک چوٹیوں سے ہم کنار کردیا۔ آپ نے نیچریت قادیانیت نجدیت اور دیگر اصلاحی تحریکوں کے روپ میں جاری ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گریز و بیگانگی کی انحرافی کوششوں کے سیلاب کے آگے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمالہ تعمیر کیا۔
اردو ترجمہ قرآن کنزالایمان 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ اور 50 سے زائد علوم و فنون میں ایک ہزار سے زائد کتب و رسائل کے خالق اور نام و نمود سے دور امام احمد رضا بریلوی ایک بے مثل فقیہ، بے نظیر مصلح اور بارگاہ رسالت میں مقبول اور مسلمانان عالم کی
نشاہ ثانیہ پر مامور مجدد دین و ملت تھے۔ تصلب فی الدین ، فروغ عشق رسول، اصلاح فکر و عمل رسول کریم کے دشمنوں کی سرکوبی آپ کی امتیازی صفات ہیں۔ نظم و نثر میں آپ کی فقہی، اصلاحی اور تجدیدی خدمات ہماری سیاسی و ملی تاریخ کا زریں باب ہے۔ مولانا محمد علی جوہر مولانا عبدالباری فرنگی محلی قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال سمیت اکابر تحریک پاکستان پر آپ کے سیاسی افکار کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ آپ کے نعتیہ کلام حدائق بخشش نے دنیا بھر کے مسلم معاشروں کو محبت رسول کے نور سے مستنیر کرنے کے علاوہ خود ہماری قومی زبان کو وہ پاکیزگی اور ادبی وقار و اعتبار کیا ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ دینی و اصلاحی کاموں کے لیے مالی و مکانی وسائل کی قلت کے شاکی اور شہرت و ناموری کے طالب رہنماوں و کارکنان کو امام احمد رضا بریلوی رح کا شعر ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں